انٹرنیٹ کا آزادانہ استعمال؟
انٹرنیٹ ایک خود مختار’ خفیہ اور مخصوص میڈیا بن چکا ہے اور سچ کہیں تو یہ سرکاری میڈیا کا متبادل بھی بن چکا ہے۔ مشرق وسطی میں انٹرنیٹ کی وجہ سے گورنمنٹ اور عوام کے درمیان بدلتے ہوئے رشتے پر ایک نظر۔۔۔
1970 کی دہائی اور شاہ پہلوی کے دور حکومت کے اواخر میں’ آیت اللہ خمینی کی ممنوعہ تعلیمات کی پیرس میں موجود جلا وطنوں کی جانب سے تشہیر اس دور کی ٹیکنالوجی کا جدید ترین استعمال تھا۔ یہ حقیقت جدید ٹیکنالوجی اور موجودہ حکومتوں کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے کافی اہم ہے۔
ٹیکنالوجی بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی مرکزی حکومت کی جانب سے لوگوں کی آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کی راہ میں ایک بڑا چیلنج ہے ۔ جیسا کہ آپ مشرق وسطی کے کئی ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔ مشرق وسطی میں معلومات کی بروقت فراہمی اور تبادلہ موجودہ سماج اور سیاست کے لیے نہ صرف ایک بڑا خطرہ ہے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان تعلق کی شکل بھی تخلیق کرتا ہے۔
مشرق وسطی میں انٹرنیٹ کا تیز تر پھیلاوء
1990 کے آغاز میں ہی انٹرنیٹ مشرق وسطی میں ایک مسئلہ بن گیا۔ اس کی اجازت دینے میں شام اور سعودی عرب آخری ممالک تھے اور انہوں نے ایسا تب کیا جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ٹیکنالوجی کے اعبتار سے اس قابل نہیں کہ انٹرنیٹ تک مفت رسائی کو روک سکیں۔
ان سالوں میں انٹرنیٹ اس خطے کے ممالک میں پھیلتا چلا گیا اور ان میں سے کچھ ہی اس کی اہمیت کو سمجھ پائے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عوام نہ صرف اپنے ملک کی بلکہ دوسرے ممالک کی خبریں جاننے کے لیے بھی بے تاب تھے۔ ایک اور حقیقت کہ اس خطے کے کئی حصے ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔
اس لیے دوسری جانب وہ ممالک ہیں جو شاید انسانی وسائل کی وجہ سے ابھی تک انٹرنیٹ سے محروم ہیں جیسا کہ شام جو مصر سے زیادہ جمہوریت پسند ہے لیکن وہاں انٹرنیٹ کا پھیلاوء مصر سے صرف 0.5 فیصد زیادہ ہے بہرحال پھیلاوء کی شرح 4 گنا زیادہ ہے۔
انٹرنیٹ معلومات کی تخلیق کیلیے بطور آلہ
انٹرنیٹ کی ایک خصوصیت جو اسے اخبارات’ ریڈیو اور ٹی وی سے مختلف کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا نہ صرف معلومات حاصل کرسکتا ہے بلکہ اسے آگے پہنچا بھی سکتا ہے۔ پرانے وقتوں میں خبریں سرکاری چینلز کے ذریعے بہت نپے تلے انداز سے ملتی تھیں جو مرضی کے مطابق چھان کر عوام کو پہنچائی جاتی تھیں۔
لیکن اب انٹرنیٹ کے ذریعے صارف خود یہ طے کرتا ہے کہ اس نے دنیا کے کس کونے اور کس منبع سے خبر حاصل کرنی ہے اور اس طرح صارف اور خبر کے منبع کے درمیان کوئی دوسرا واسطہ نہیں ہوتا جو اس پر اثر انداز ہو سکے۔(جیسا کہ بلاگز اور فورمز)
لیکن اب انٹرنیٹ اس سے بھی زیادہ پر اثر ہو چکا ہے کیوں کے پرانے میڈیا کے بر عکس اس پر معلومات کا تبادلہ دو طرفہ ہوتا ہے یعنی کہ صارف نہ صرف معلومات وصول کر سکتا ہے بلکہ مزید معلومات کو پیدا اور ان کا با آسانی فروغ بھی کر سکتا ہے تا کہ وہ پوری دنیا میں پہنچ سکیں۔ جب ہم شخصی آزادی اور آزادی اظہار راۓ کی بات کرتے ہیں تو یہ حقیقت بالواسطہ طور پر حکومتوں کے لیے اور بالخصوص کم اثر والے سیاسی گروپس کے لیے حقیقتا ایک چیلنج ہے۔
اس قسم کے چیلنج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعہ کی ایک مثال «یونٹ ٹو کمبیٹ سائبر اینڈ انٹرنیٹ کرائمز» کا قیام ہے جسے مصری حکومت نے ایک اتھارٹی کے طور پر ستمبر 2002 میں اس لیے بنایا تا کہ انٹرنیٹ جرائم کی سراغ رسانی اور اس میں فوری مداخلت کی جا سکے۔ اس کا بنیادی مقصد ان صارفین تک پہنچنا تھا جو وقتا فوقتا جنسی اشتہا والی سائٹس بناتے تھے۔
اس ادارے کے ذریعے ان تک رسائی بے حد آسان تھی کیونکہ تمام ملکی سرورزحکومتی وزارت ذرائع ابلاغ کے تحت چل رہے تھے۔ اس ادارے کی مشہوری تب ہوئی جب مصری اخبار الاحرام نے 5 مارچ 2004 کو اس ادارے کی جانب سے گرفتار ہونے والے ایک شخص کی کہانی چھاپی جس نے ایک ویب سائٹ بنا کر ایک سرکاری افسر اور اس کی فیملی کو نشانہ بنایا۔
مشرق وسطی میں انٹرنیٹ اور انتہا پسند تحریکیں
مشرق وسطی میں بہت سے انتہا پسند گروپس سیاسی’ سماجی’ مذہبی اور ثقافتی رجحانات میں (جہاں عموما خاموشی اختیار کی جاتی ہے) اپنی آواز اٹھانے’ افکار سنانے اور انتشار پھیلانے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتی ہیں (جو بعض اوقات پردے کے پیچھے ہی رہتی ہیں)۔ انٹرنیٹ انہیں موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی حیثیت اور جنسی برابری کی بات کر سکیں۔ یہ وسیع تر سرگرمی ان تمام رجحانات کا ثبوت ہے جو مشرق وسطی میں درجنوں آرگنائزیشنز کے وجود کی شکل میں نظر آتے ہیں جو انٹرنیٹ پر متحرک ہیں اور خواتین کی برابری کیلئے کام کرتے ہیں۔ پورے مشرق وسطی کی عرب خواتین کا ان کی عرب معاشرے میں حیثیت اور حالت زار کے حوالے سے جو تاثر ہے اس کو صاف صاف بیان اور اجاگر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کچہ انٹرنیٹ سائٹس سعودی عرب میں طلاقوں سے متعلق ہیں یا مصری خواتین کی جانب سے بنایا جانے والا ریڈیو اسٹیشن جو انٹرنیٹ پر پوری طرح سرگرم ہے۔
انٹرنیٹ کا استعمال کچھ اور گروپس بھی کر رہے ہیں؛ اصلاحی اور سیکولر گروپس موجودہ تنظیموں کے خلاف برسر پیکار ہیں جب کہ دوسری طرف بنیاد پرست عناصر؛ مسلمان جو اگرچہ قانونی طور پر کوئی راستہ نہیں پاتے لیکن آن لائن ہو کر اسے ممکن بنا لیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں انٹرنیٹ کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کی تیز’ وسیع اور مفت معلومات فراہم کرتی ہیں۔ وہ قیدیوں کی رہائی کی مہمات چلاتی ہیں۔ بلاگرز اور حکومت مخالف افراد انٹرنیٹ کا استعمال نہ صرف اپنے نظریات کی تشہیر کیلئے بلکہ وسیع تر انشورنس پالیسی (جو ان کے غائب ہونے یا گرفتار ہونے پر کام آ سکے ) کے طور پر بھی کرتے ہیں۔
11 اپریل 2009 کو مصری پولیس نے انسانی حقوق کے علمبردار بلاگر ویل عباس کو گرفتار کر لیا۔ اپنے موبائل فون کے ذریعے ٹویٹر کو استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنے 2500 فالوورز تک اپنی قید اور پولیس کے رویے کی معلومات پہنچا دیں۔ اس کے فالوورز نے اس پر توجہ دی اور اسے آگے پہنچایا۔ اگلے ہی دن اسے رہا کر دیا گیا۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ ایک امریکی طالب علم جیمز بک کا ہے جس کا تعلق بارکلے’ کیلیفورنیا سے تھا اور تب وہ پکڑا گیا جب وہ ایک مظاہرے کو کور کر رہا تھا۔ اس نے اپنے موبائل فون سے صرف «arrested» ٹویٹ کر دیا۔ اس کے فالوورز نے اسے سچ جانا اور یہ بات بارکلے میں اس کے سکول تک جا پہنچی اور اگلے دن وہ بھی رہا کروا لیا گیا۔
انٹرنیٹ مختلف مذہبی تحریکوں اور مذاہب کے درمیان نہ صرف بات چیت کا ذریعہ ہے بلکہ بعض اوقات یہ جنگ کا میدان بھی بنا ڈالتا ہے۔ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان لڑائی میں ان کی متعلقہ ویب سائٹس کو بھی غیر قانونی کہا گیا اور نشانہ بنایا گیا۔ کچھ عیسائی ویب سائٹس کو بند کیا گیا جو مسلمانوں کو عیسائت کی ترغیب دیتی تھیں (خاص طور پر سعودی عرب میں)
دوسری طرف’ مذہبی اقلیتیں’ جیسا کہ قدیم مصری عیسائی اپنے طرز زندگی اور خطے کے بعض ممالک میں پائی جانے والی مذہبی جنونیت کے خلاف اپنے مذہب پر کاربندی کے لیے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ متحرک ہیں۔
انٹرنیٹ پر انفارمیشن کے دو طرفہ بہاوء کی ایک اور مثال سوشل میڈیا ہے جس میں ہم جنس پرستوں کی جاندار موجودگی ہے۔ ان کو ہراساں کرنے کے لیے دستاویزات کے تحت تمام دنیا کے ممالک میں گرفتاریاں کی گئیں۔ اس کمیونٹی کے صارفین کے درمیان حقیقی دنیا میں محتاط طرز عمل کی آن لائن اشاعت’ آن لائن سفر اور اس سے بھی بڑھ کر ہم خیال لوگوں کے ملنے اور ایونٹس کے بارے تبادلہ خیال کی جگہ بھی موجود ہے۔
اس پس منظر میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مصر میں «انٹرنیٹ پولیس» نے اپنا رخ اور ذرائع اس کمیونٹی کی جانب موڑ دیا تھا۔ ایسے لوگوں کے ملنے کی انٹرنیٹ پر موجود جھوٹی خبروں پر چھاپے بھی مارے گئے۔ اور بعد میں ان اطلاعات کے فراہم کنندہ گرفتار کیے گئے۔
مشرق وسطی میں تبدیلی کے لیے سوشل میڈیا بطور آلہ
سوشل میڈیا مشرق وسطی میں ایک زبردست تبدیلی لایا۔ یو ٹیوب پر مظاہروں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ویڈیوز شائع کی گئیں۔ فیس بک کے ذریعے گروپس کو دباوء پیدا کرنے اور اسے بڑھانے کا ایسا پلیٹ فارم ملا کہ بعض اوقات نوبت عملی طور پر گلیوں تک آ پہنچی۔ ٹویٹر خبروں کی بروقت اور تیز تر ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس عوامی بے چینی کے اظہار کا اہم ذریعہ ہیں کیونکہ یہ تیزی سے بڑے پیمانے پر خبریں لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ آرگنائزر اور فالوورز کے درمیان پیغامات کی ترسیل کو ممکن بناتے ہیں تا کہ بڑے پیمانے پر ہم آہنگ تحریک پیدا کی جا سکے۔ اس طرح سوشل میڈیا خفیہ’ ونمیئ اور خودمختار پیغامات کا خفیہ نیٹ ورک ہے جو ٹیکنالوجی کی شکل میں سرکاری ذرائع اطلاعات کا ایک طرح سے نعم البدل بھی ہے۔
یہ نیٹ ورک مشرق وسطی کا چہرہ بدل رہا ہے اور حکومت اور عوام کے درمیان طاقت کا عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔ پہلی بار مسلمان ذاتی رشتے بنا رہے ہیں جو روایتی مسلم خاندان میں نا ممکن ہے۔ غیر شادی شدہ لوگ کسی دوست سے روزمرہ زندگی کے معاملات بارے بات کر سکتے ہیں۔ نوجوان ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میوزک ویڈیوز’ مذہبی تبلیغ اور اشتہا انگیزی کی سائٹس۔
شام جو 2007 تک «مشرق وسطی کا سب سے بڑا قیدی» کہلاتا تھا’ وہاں بھی سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو سرکاری میڈیا میں کبھی سنائی نہیں دیں تھیں۔ فیس بک پر کچھ شامی گروپس ملک میں تبدیلی لانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ایک آن لائن مہم قابل تحسین ہے جس میں ایک ٹین ایجر لڑکی کی عصمت دری کا بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا۔ ایک اور مثال اس مہم کی ہے جس کے ذریعے ایک مہنگی اور ناقص موبائل فون کمپنی کا بلاگرز کے ذریعے بائکاٹ کیا گیا۔
اس کے علاوہ ایسے گروپس بھی ہیں جو پکڑے جانے والے بلاگرز کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر کے ان کو چھڑاتے ہیں۔ شام میں گروپس یو ٹیوب پر ویڈیوز کے ذریعے کرد اقلیت کے ظلم و ستم دکھاتے ہیں۔
مشرق وسطی میں بلاگز کا منظر نامہ بہت فعال حیثیت رکھتا ہے اور تقریبا 600000 بلاگز عربی میں بنائے جا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی اس وقت فعال ہیں جب کہ ایک تہائی کا تعلق مصر سے ہے جہاں مشرق وسطی میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ اس علاقے کو مقامی معاملات کے بارے میں معلومات پیدا کرنے اور حاصل کرنے کے لئے بنیادی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ( تمام عرب دنیا کو متحد کرنے والا واحد موضوع اسرائیل فلسطین تنازعہ ہے۔) یہ بلاگ سماجی پہلوؤں (کویت اور سعودی عرب کی خواتین کے قدامت پسند عرب معاشرے میں زندگی کے بیان کے لیے ) کے ساتھ ذاتی ڈائری کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ مصر مشرق وسطی میں خواتین بلاگرز کی سب سے بڑی تعداد رکھتا ہے۔
یہ بلاگز ثقافت ، مذہب اور سیاست کے بارے میں خیالات کے اظہار کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ان بلاگز کے ساتھ ساتھ فیس بک’ یو ٹیوب اور ٹویٹر بھی مشرق وسطی میں بہت مقبول ہیں۔
فیس بک کی اہمیت کا بطور سوشل میٹنگ پوائنٹ اندازہ’ 2008 میں مصر میں ہونے والے «فیس بک فسادات» سے لگایا جا سکتا ہے۔ صرف کچھ لوگوں نے کارکنوں کی ہڑتال کا اعلان کیا اور اس حوالے سے فیس بک پر گروپس بنائے اور بعد ازاں ہزارہا لوگوں نے ان گروپس میں شمولیت اختیار کر لی۔
نتیجتا بڑی پارٹیز نے بھی ان میں شمولیت اختیار کی اور خبریں پھیل گئیں۔ ہڑتال مخالف گروپس بھی بناۓ گئے لیکن ان میں بہت کم لوگوں نے حصہ لیا۔
اس قسم کی آن لائن سرگرمیوں کو مظاہروں اور پولیس کے درمیان فسادات کی شکل میں لیا گیا جس نے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ کھینچ لی۔
ان واقعات نے انٹرنیٹ کو نہ صرف بطور محرک برائے تبدیلی بلکہ انفارمیشن کے حصول کے لیے بھی طاقتور ثابت کیا اور بعض اوقات تو واقعات کی خبر کا واحد ذریعہ بھی۔
مزید برآں’ یہ واقعہ آن لائن اور عملی سرگرمیوں کے درمیان ہم آہنگی کا پہلا اظہار ثابت ہوا جب قیادت پر عدم اطمینان کا عملی طور پر شہر کی گلیوں میں اظہار کیا گیا۔
ایران واقعات کو پیدا کرنے اور ان کے بارے میں خبر دینے کے حوالے سے انٹرنیٹ کی طاقت کی ایک اور مثال ہے۔ جون 2009 میں چاروں امیدواروں نے اپنے حامیوں تک رسائی کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جو ایران میں انٹرنیٹ کے پھیلاوء کا ثبوت ہے۔ امیدواروں کے فیس بک صفحات اور یو ٹیوب چینلز تھے جہاں واقعات’ ریلیوں اور تقریروں کی ویڈیوز شائع کی گئیں اور فلکر پر تصویریں دکھائی گئیں۔
ایران میں انٹرنیٹ کی طاقت الیکشن کے بعد ظاہر ہوئی جب حکومت کے خلاف جدوجہد میں سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہیرو بنے۔ موساوی کے حامی گلیوں میں نکل آئے اور انٹرنیٹ کو انہوں نے کال کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے مظاہروں اور حکومتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کو فلمایا۔
مظاہرین نے گلیوں سے اپنے موبائل فون کے ذریعے ٹویٹر کو استعمال کرتے ہوۓ باقی دنیا کو معلومات فراہم کیں۔ ایک ویڈیو نے ندا سلطان کو جدوجہد کی علامت بنا دیا جس میں اسے گولی لگنے سے ایک منٹ پہلے کا منظر ہے۔ اگر یہ ویڈیو یو ٹیوب پر اپ لوڈ نہ ہوئی ہوتی تو شاید کوئی اس کی موت کے بارے جانتا تک نہ ہوتا۔ اور وہ اس راہ کی شہید اور ہیرو نہ کہلاتی۔
پکاسا اور فلکر کو ہر قسم کی تصویریں اپ لوڈ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (جیسا کہ عام زندگی کے واقعات تا مظاہروں’ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور گرفتاریوں کے واقعات وغیرہ وغیرہ )
حکومتوں کی جانب سے مخالفانہ سرگرمیاں
مشرق وسطی کے ممالک میں سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا خبروں کی ترسیل کے لیے بطور متبادل اور کبھی کبھی بطور واحد ذریعہ استعمال وہاں پر قائم قوانین سے لوگوں کے اختلاف کو ظاہر کرتا ہے اور وہاں کی حکومت کی خبروں پر گرفت کو کمزور کرتا ہے۔ انٹرنیٹ وہاں کی حکومتوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ آن لائن حتی کہ موبائل فون سرگرمیوں کو روکنے اور بے اثر کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے۔
انٹرنیٹ آزادی کے حوالے سے مشرق وسطی کی حکومتیں سب سے زیادہ ظالم ہیں اور جو ان کے مطابق خلاف ورزی ہو اس پر وہ کھل کر رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔ گرفتاریاں’ دھمکیاں’ سائٹس اور بلاگز کی بندش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز (RWB) نے 17 ممالک کو «انٹرنیٹ دشمن» یا «زیر مشاہدہ» قرار دیا ہے۔ ان میں سے 7 ممالک کا تعلق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے ہے۔ بلاگرز کے لیے خطرناک قرار دئیے جانے والے 10 میں سے 5 کا تعلق مشرق وسطی سے ہے؛ مصر’ شام’ ایران’ سعودی عرب اور تیونس۔ ان حکومتوں نے سینکڑوں نہیں تو درجنوں بلاگرز گرفتار کیے ہیں۔
یو ٹیوب مشرق وسطی میں سب سے زیادہ بلاک کی جانے والی سائٹ سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس پر ہر طرح کی ویڈیوز موجود ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ویڈیوز ایسی ہیں جو اس خطے کے اکثر ممالک کے سماجی’ ثقافتی اور مذہبی ضابطہ اخلاق سے تضاد کھاتی ہیں اور معلومات اور ثقافت پر حکومتی گرفت کو ختم کرتی ہیں۔ سوڈان اور مراکو میں بغیر کسی وضاحت کے یو ٹیوب بند کر دی گئی ہے۔ شام میں اس سائیٹ کو اس لیے بند کر دیا گیا کہ اس پر کسی تقریب کے موقع پر صدر کی بیوی کا لباس اڑنے کی ویڈیو تھی۔ تیونس میں اس کو اس لیے بند کیا گیا کہ اس پر اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ویڈیوز تھیں۔ اور یہ ترکی کے لیے خاص طور پر ایک سچ ہے جہاں یوٹیوب کو اس لیے بند کیا گیا کہ اس پر اتاترک (باباۓ ترک) کے نام پر کلنک یونانی ویڈیوز تھیں۔ یہ ممالک یوٹیوب سے مخصوص ویڈیوز کو مٹانے کے لیے رابطہ کرتے رہتے ہیں۔
شام میں اس کو اس لیے بند کر دیا گیا کہ یہ شامیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن رہی تھی۔ اب یہ 3 سال کے لیے بند کی جا چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ایک ایپلیکیشن بند کی گئی جو لوگوں کو ملنے میں معاون تھی۔ کچھ حکومتیں اس سے بھی آگے گئیں جیسا کہ شمالی افریقہ میں مخالفین کے صفحات کو آف لائن کر دیا گیا۔
سوشل نیٹ ورکس کی طاقت کا اندازہ کرتے ہوۓ ان سائٹس کو کھول دیا گیا ہے اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے حکومت اپنے خرچے پر ان سائٹس پر اپنے اکاونٹ کھلوا رہی ہے۔ سرکاری افسران کی اپنی ویب سائٹس ہں۔ حکومتیں صرف موجودہ نظام کو مضبوط کرنے کے لیے’ یو ٹیوب’ فیس بک’ ٹویٹر اور فلکر پر اکاونٹس’ صفحات اور گروپس چلا رہی ہیں۔ بسیج مستضعفین کے لیے ایران کی حکومت نے ہزاروں بلاگز بناۓ ہیں۔
چونکہ ان بلاگز میں کوئی بھی حصہ لے سکتا ہے اس لیے ان کا کبھی کبھار کا کم کم استعمال سوشل میڈیا کو اپنی مرضی سے چلانےکی حکومتی کوشش کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
مشرق وسطی کے انٹرنیٹ صارفین اسٹیبلشمنٹ کے خلاف انٹرنیٹ کو بطور احتجاجی آلہ استعمال کرنےاور آواز بلند کرنے میں جیت چکے ہیں۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ان کے لیے زیادہ کارآمد ہے جو سیاسی اور سماجی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ ان میں ایک سرے پر آزاد خیال عناصر ہیں تو دوسرے سرے پر انتہا پسند۔ انٹرنیٹ صارفین ملک میں اظہار راۓ کی آزادی اور شہریوں اور حکومت کے درمیان طاقت کے توازن کے درمیان رسہ کشی میں مصروف ہیں۔
صارفین کے لیے معلومات کی فراوانی اور متعلقہ دستاویزات کی تخلیق حکومتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کئی معاملات میں اپنا رویہ تبدیل کرے؛
انسانی حقوق
حکومتیں مزید شفاف ہونے پر مجبور ہیں۔ اس دور میں حکومت مخالف عناصرکو دبانا بہت مشکل ہے۔ بلکہ ایسے واقعات میڈیا کی نظر میں وسیع پیمانے پر آتے ہیں جیسا کہ مصر میں تشدد کا ایک نیا رخ اس کی مثال ہے۔
سوسائٹی
انٹرنیٹ ایک ایسا میڈیا ہے جو سماجی تبدیلی کے لیے گروپس بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ چند مثالیں مہنگائی کے خلاف احتجاج’ حکومتی گورکھ دھندے کے خلاف احتجاج اور جہالت کے خلاف احتجاج شامل ہیں۔ یہ گروپس قومی اور سماجی نظریات کی خود احتسابی کی دعوت بھی دیتے ہیں۔
سیاست
چونکہ خطے کی حکومتیں انٹرنیٹ کی اہمیت سے آشنا ہیں اس لیے وہ اسے اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ صارفین انٹرنیٹ کو نہ صرف سیاسی دباوء کے خلاف بطور آلہ بلکہ گروپس بنا کر آواز بلند کرنے اور سیاسی تبدیلی کے لیے حکومت پر دباوء ڈالنے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
مستقبل پر ایک نظر
جب کہ مرکزی میڈیا سخت پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے’ انٹرنیٹ غیر سنسر شدہ انفارمیشن کے حصول اور پھیلاوء کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ سرکاری میڈیا کا ایک نعم البدل بھی ہے۔
شہریوں اور حکومتوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں صرف اس لیے نہیں کہ یہ خبروں کی دو طرفہ ترسیل کا ذریعہ ہے بلکہ اس لیے بھی کہ حکومت کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ کیا کوئی حکومت نظر انداز کر سکتی ہے کہ اس کے خلاف آن لائن مہم کی کال پوری دنیا کو پتہ چلے؟ کیا کوئی حکومت کسی مقبول سائٹ کو لمبے عرصے تک بند رکھنے کی قیمت چکا سکتی ہے؟
اگر انفارمیشن ہی طاقت ہے تو انٹرنیٹ یہ طاقت حکومت سے عوام کو منتقل کرتا ہے۔ پوری دنیا اور بالخصوص مشرق وسطی میں انٹرنیٹ کی طاقت بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ انفارمیشن کو عام کرنے اور اس کو کسی بھی موجودہ سیاسی’ سماجی’ مذہبی’ معاشی اور ثقافتی نظام کے لیے چیلنج بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اور شہریوں کی جانب سے کسی سرگرمی کو منتظم اور شدید کرنے کے بھی قابل ہے۔
نتیجہ صاف ظاہر ہے – چونکہ انٹرنیٹ مشرق وسطی میں سرایت کر چکا ہے لہذا صارفین کی جانب سے شخصی آزادی کے مطالبے بڑھیں گے جس سے شہریوں اور حکومتوں کے درمیان تنازعہ بھی بڑھے گا۔ اس سے تبدیلی کے لیے دباوء مزید بڑھے گا اور ایران اور مصر جیسے واقعات وقوع پذیر ہوں گے۔ اب کی بار ان واقعات کے نتائج مزید خطرناک ہوں گے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلاشک و شبہ انٹرنیٹ مشرق وسطی کے موجودہ نظام میں تبدیلیاں لاۓ گا اور حکومتوں کو اپنا طرزحکومت بدلنے پر مجبور کرے گا اور حکومتوں کو مجبور کرے گا کہ وہ شہریوں کے ساتھ اپنا رشتہ بدلے – اور ممکن ہے کہ سب کچھ بدل ڈالے۔
This post is also available in:
English
עברית
Español
Türkçe