بعد از صدام عراق میں انٹرنیٹ
عراق میں انٹرنیٹ کی حیثیت میں، سرکاری پالیسی اور استعمال کے حوالے سے، بنیادی تبدیلی اس وقت آئی جب 2003ء میں صدام حسین کو اس کے عہدے سے جبرا ہٹا دیا گیا۔ زندگی کے دیگر حقائق کی طرح عراق میں انٹرنیٹ بھی کوئی یکساں اور مربوط شکل نہیں رکھتا۔ عراقی شہریوں کے بلاگز اور فیس بک گروپس اور سرکاری اداروں کی ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ مسلح مسلمان اور فتنہ انگیز گروہ بھی سائبر سپیس میں موجود ھیں اور ایسا ہی حال قیام پذیر غیر ملکی افواج اور لوگوں کا ھے۔ غیر متوقع طور پر یہ گروہ جوڑوں کی شکل میں ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ھیں کہ عراق کے مغربی حصے کے کسٹمرز جو سرکاری نظام اطلاعات و نشریات کے گاہک بن رھے ھیں، ان میں سے ایک فتنہ انگیز گروہ ھے جس کا مقصد سرکاری اور غیر ملکی طاقتوں اور اداروں میں کسی حد تک مداخلت قائم کرنا ھے اور دوسری طرف عراقی عوام ھیں، جو سرکاری و غیر ملکی طاقتوں اور فتنہ انگیز گروھوں کے درمیان جاری تصادم کے درمیان اپنی زندگیوں کا حال انٹرنیٹ پر لکھتے ھیں۔
انٹرنیٹ کا پھیلاو
اگرچہ عراق میں انٹرنیٹ 1998ء میں متعارف ھوا لیکن عوام کو استعمال کے لیے یہ دو سال بعد میسر ھوا۔ صدام حسین کے دور کے اواخر تک دو کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی میں سے صرف پنتالیس ھزار صارفین انٹرنیٹ استعمال کر رھے تھے جن میں زیادہ تر سرکاری افسران تھے یا وہ لوگ جو انٹرنیٹ کی بھاری فیس ادا کرنے کے قابل تھے جو ایک عام عراقی کی پہنچ سے باھر تھی۔ ان فیسوں کا زیادہ ھونا اس وقت عراق پر بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے موڈیم رکھنے پر قانونی حدود اور معقول پارٹس اور آلات کی عدم دستیابی تھی۔
اس وقت صدام کے دور میں 65 انٹرنیٹ کیفے کھولے گئے جن میں کسی بھی طرح کی ای میل تک رسائی کو بلاک رکھا گیا تھا اور جن ویب سائٹس کی اجازت تھی ان کا استعمال بھی محدود رکھا گیا تھا۔ ان حدود سے نکل کر انٹرنیٹ استعمال کرنے کا ایک طریقہ کردستان کا علاقہ تھا جہاں انٹرنیٹ کا استعمال تقریبا مفت تھا۔ [1]
آج بھی عراق میں انٹرنیٹ صرف ایک خاص انعام یافتہ طبقے کے لیے میسر ھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عراق میں صرف ایک فیصد لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ھیں (جو کہ مشرق وسطی میں سب سے کم شرح استعمال ھے) البتہ یمن 1.6 فیصد سے اس سے اوپر دوسرے اور عمان 13.6 فیصد سے تیسرے نمبر پر ھے۔ [2] تاھم عراق میں صورتحال زیادہ پیچیدہ ھے۔ 2008ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سٹیٹ انٹرنیٹ پرووائڈر کے صارفین کی تعداد 250،000 تھی جبکہ امریکی مشیر برائے عراقی وزارت اطلاعات کے مطابق عراق میں انٹرنیٹ کے اصل صارفین کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ تھی (!)۔ جن میں زیادہ تر صارفین غیر قانونی طور پر بالواسطہ انٹرنیٹ استعمال کر رھے تھے تا کہ انٹرنیٹ کی بھاری طلب کو پورا کرنے میں حکام کی ناکامی سے نمٹا جا سکے۔ [3]
انٹرنیٹ کے استعمال کی مختلف اشکال
عراق کی نوجوان نسل انٹرنیٹ سے پوری طرح آگاہ ھے اور اسے ای میل سمیت بہت سے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ھے۔ بہت سے عراقی بلاگرز [4] ھیں جن میں عراق میں رھنے والوں [5] کے ساتھ ساتھ بیرون ملک عراقی بھی شامل ھیں جن میں سے کچھ تاحال عراق ھی میں مقیم تھے۔ [6] ان میں عربی یا انگریزی لکھنے والے ھر عمر کے مرد اور عورتیں شامل ھیں۔ ان میں سے کئی سالوں سے فعال بلاگز، ملک میں ھونے والے ھزار ھا واقعات کے موضوع پر ھیں۔[7]
آپ «فیس بک» پر عراقی عوام کے ذاتی صفحات اور گروپس کے اعداد و شمار دیکھ سکتے ھیں خواہ یہ انگریزی میں ھوں یا عربی میں ، ملک کے اندر سے بنائے گئے ھوں یا باھر سے۔ ان گروپس میں سے بعض کے ممبران کی تعداد ھزاروں میں ھے۔ اور یہ عراق کے عوام کی عمومی زندگی [8] سے متعلق ھیں یا مختلف نوع کے متعدد موضوعات پر مبنی ھیں جیسا کہ تاریخ [9] ، گردوپیش [10] ، ترکمانی اقلیتیں [11] ، تعلیمی زندگی [12] ، عراقی انجینئرز [13] ، عراقی سٹاک مارکیٹ [14] ، فٹ بال [15] ، خواتین [16] اور عراقی افواج [17]۔ آپ صدام حسین کو نذر کردہ گروپس بھی دیکھ سکتے ھیں جن میں سے ایک نے صدام حسین کو «کنگ آف عراق» کا نام دے رکھا ھے لیکن اس کے فینز کی تعدادصرف 69 ھے اور یہ تقریبا غیر فعال ھے۔ [18] اسی طرح اس عراقی صحافی پر بھی گروپ موجود ھے جس نے صدر بش پر جوتا اچھالا تھا اور اس گروپ کے فینزکی تعداد 1700 ھے۔[19] بعض گروپس کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کیا جاتا ھے [20]، بعض گروپس عرصہء دراز سے غیر فعال ھیں [21] جبکہ کچھ ایسے بھی ھیں جو کئی سالوں سے کام کر رھے ھیں۔ عراقی حکومتی عہدیداران بھی انٹرنیٹ سے وابستہ ھیں جیسا کہ صدر [22]، کابینہ [23]، پارلیمینٹ (نیشنل اور علاقائی کردستانی) [24] اور بہت سی سرکاری ایجنسیاں اور ادارے – جن میں نیشنل ائیر لائن بھی شامل ھے۔ [25] تاھم صدارتی ویب سائیٹ پر بہت سے سرکاری لنکس کام نہیں کرتے[26] جو اس امر کا ثبوت ھے کہ عراق میں تاحال انٹرنیٹ ابتدائی مراحل میں ھے حتی کہ سرکاری سطح پر بھی۔ عراق میں اطلاعاتی نظام کی بہتری کے لیے امریکی کوششیں قابل تحسین ھیں۔ جس کے دفاعی ڈیپارٹمنٹ نے 165 ملین ڈالر انٹرنیٹ کیفے بنانے پر خرچ کیے ھیں جس کی وجہ سے 2004ء سے 2006ء تک انٹرنیٹ کیفز کی تعداد 36 سے بڑھ کر 170 ھو گئی۔ [27] آپ کو ان کیفیز پر جدید کمپیوٹر، ھائی سپیڈ کنکشن، سوفٹ وئیر پروگرامزکی متعدد اقسام، ویب کیمرے اور بند کیبن بھی ملیں گے جن کی مدد سے صارف اپنی رازداری بھی برقرار رکھ سکتا ھے۔
مسلمان انتہا پسندوں کے لیے انٹرنیٹ بطور آلہ
عراق میں بہت سی اسلامی تحریکوں اور اداروں کی اپنی ویب سائٹس ھیں [28] جن میں سے بعض فعال ھیں [29] اور بعض کو بند کر دیا گیا ھے [30] ان فعال ویب سائٹس میں سے ایک کا نام «سنائپرز آف بغداد» ھے [31] جب کہ ایک «عراقی اسلامی فوج کے حاصل» کے موضوع پر ملٹی میڈیا مواد فراھم کرتی ھے۔ [32] جب کہ ان گروپس پر بحث و مباحثہ کے لیے فورمز بھی تشکیل دئیے گئے ھیں۔ [33] سڑک کنارے نصب بموں سے لے کر گھات لگا کر چلائی گئی گولیوں تک، یہ اسلامی گروپس ملک میں موجود غیر ملکی طاقتوں کے خلاف اپنے حملوں کی تشہیر کے لیے «یوٹیوب» کا بھی استعمال کرتے ھیں۔[34] ان کی جاری کردہ ویڈیوز اکثر مزھبی گانوں کے ساتھ پیش کی جاتی ھیں۔[35] آپ روزمرہ زندگی میں بے دردی کا ثبوت بھی دیکھ سکتے ھیں جس میں قتل و غارت [36] اور سرکاری سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیا جانے والا تشدد [37] بھی شامل ھیں۔
حال ھی میں یہ اطلاعات بھی ملی ھیں کہ عراق میں اسلامی گروھوں نے چیٹ رومز اور فورمز میں حصہ لینے والے ھم جنس پرستوں پر تشدد اور قتل کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کیا ھے۔ اسی طرح ان گروپس کے بارے میں کہا گیا ھے کہ وہ اس سال کے آغاز سے اب تک 130 ھم جنس پرستوں کی موت کے ذمہ دار ھیں۔[38]
انٹرنیٹ پر حد بندیاں
حالیہ سالوں میں انٹرنیٹ کے استعمال پر سرکاری حد بندیوں اور مداخلت کے حوالے سے کوئی واقعات سامنے نہیں آئے اور نہ ھی اس حوالے سے کسی پالیسی کا اعلان کیا گیا ھے۔[39] تاھم حالیہ چند ماہ میں عراقی حکام نے اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ھیں جن میں کتابوں کی اشاعت اور ان ویب سائٹس پر پابندیاں شامل ھیں جو عوام کے لیے نقصان دہ محسوس کی گئی ھیں جیسا کہ جنسی مواد والی ویب سائٹس یا وہ ویب سائٹس جن میں جواء، منشیات اور اسلام پر تنقید یا تشدد کو فروغ دیا جا رھا ھے۔ انٹرنیٹ کیفے مالکان کو ھر صورت میں حکام کے پاس رجسٹریشن کے لیے مجبور کیا گیا ھے۔ حکام نے ان اقدامات کی وضاحت یہ کہتے ھوئے کی کہ یہ ممنوعہ کتب اور ویب سائٹس تشدد کو فروغ دینے والی ھیں اور عراقی نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب کر رھی ھیں۔ جب کہ ان اقدامات کے مخالفین کا کہنا ھے کہ ایسے حکومتی افعال عراق کو صدام حسین کے بدترین دور کی جانب دھکیلنے اور ھمسایہ ممالک جیسا بنانے کا عندیہ ھیں۔[40]
بہرحال کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ھم دیکھتے ھیں چونکہ 2003ء سے پہلے عراق میں شدید تفرقہ کے نتیجے میں مناسب انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اور تب سے اب تک ملک کے بےترتیب حالات کی وجہ سے عراق کو کچھ وقت تو لگے گا کہ وہ انٹرنیٹ تک رسائی اور استعمال کے حوالے سے اپنے ھمسایہ ممالک کے درجہ تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسا بھی لگتا ھے کہ عراقی عوام – کچھ حصہ ھی سہی – اس نئے میڈیا تک رسائی کے لیے بے چین ھے۔ تاھم صورتحال نازک ھی ھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک، استحکام اور سرکاری اداروں کے حوالے سے جتنا کامیاب ھو گا، اتنا ھی شہریوں کی زندگیوں میں انٹرنیٹ کا کردار اھم ھو گا۔
نوٹس
[1] http://www.anhri.net/en/reports/net2004/iraq.shtml
[2] http://www.internetworldstats.com/stats5.htm
[3] http://www.boston.com/news/world/middleeast/articles/2008/05/25/iraqi_software_pirate_likes
_it_offshore_where_his_skills_mean_good_business
[4] میری اپنی تحقیق کے مطابق، زیادہ تر بلاگز گوگل کے پلیٹ فارم «بلاگرز» پر بنائے گئے ھیں اور بلاگز کے مزید تجزیے کے لیے http://iraqblogcountexp.blogspot.com (عراقی بلاگز کا شمار کنندہ) پر آپ دیکھ سکتے ھیں کہ 149 رجسٹرڈ بلاگز میں سے 110 بلاگز گوگل کے پلیٹ فارم پر بنیاد رکھتے ھیں۔
[5] http://www.rosebaghdad.blogspot.com, http://moslawi.blogspot.com,
http://www.astarfrommosul.blogspot.com, http://iraqi-translator.blogspot.com,
http://baghdadentist.blogspot.com, http://confusediraqi.blogspot.com,
[6] http://aviraqi.blogspot.com, http://www.baghdadgirl.blogspot.com,
http://baghdadtreasure.blogspot.com, http://iraqimojo.blogspot.com
[7] http://www.astarfrommosul.blogspot.com – Active since June 2004;
http://secretsinbaghdad.blogspot.com – Active since December 2003;
http://neurotic-iraqi-wife.blogspot.com – Active since August 2004;
[8] http://www.facebook.com/group.php?gid=2298113332,
http://www.facebook.com/group.php?gid=9965939982,
http://www.facebook.com/group.php?gid=35884694252,
[9] http://www.facebook.com/group.php?gid=55648240758
[10] http://www.facebook.com/pages/Keep-Iraq-Clean-/200170140345
[11] http://www.facebook.com/pages/Kirkuk-Iraq/Iraq-Turkmeneli/58551125117
[12] http://www.facebook.com/group.php?gid=5102383070, http://www.facebook.com/iraqedu,
http://www.facebook.com/pages/Iraq-Scholars-and-Leaders-Program-ISLP/124512469709
[13] http://www.facebook.com/pages/Iraq/Iraq-Engineers/66550535071
[14] http://www.facebook.com/pages/Iraq-Stock-Exchange/24947317363
[15] http://www.facebook.com/pages/Hamilton-ON/iraq-fc-2009/86666973300,
http://www.facebook.com/pages/Iraq-national-football-team/63534000107
[16] http://www.facebook.com/pages/Women-for-Women-International-Iraq/70579588419
[17] http://www.facebook.com/IRAQSF
[18] http://www.facebook.com/pages/Saddam-HUSSEIN-King-of-Iraq-/106846778623
[19] http://www.facebook.com/pages/brave-iraq-reporter-attacks-George-w-bush-with-hisshoes/
[20] http://abutamam.blogspot.com
[21] http://riverbendblog.blogspot.com, http://bethnahrain.blogspot.com,
http://www.theiraqiroulette.blogspot.com
[22] http://www.iraqipresidency.net
[24] http://www.parliament.iq, http://www.kurdistan-parliament.org
[25] http://www.motiraq.org, http://www.iraqimoc.net, http://www.moheiraq.org, http://www.iqairways.com
[26] http://www.cbiraq.org, http://www.uruklink.net/oil, http://www.iraqelectric.org,
http://www.moeiraq.info, http://www.ieciraq.org, http://www.iraqi-mwr.org,
[27] http://opennet.net/studies/iraq2007
[28] عراق میں فعال اسلامی گروپس کے بارے میں جاننے کے لیے دیکھیے
Abdul Hameed Bakier, “Iraq’s Islamic Mujahideen Profiled by Jihadi Websites: Part One,” The Jamestown Foundation, Publication: Terrorism Focus Volume: 5 Issue: 40, 26 November 2008
http://www.jamestown.org/single/?no_cache=1&tx_ttnews%5Btt_news%5D=34183;
اور
ibid, “Iraq’s Islamic Mujahideen Profiled by Jihadi Websites: Part Two,”, The Jamestown
Foundation, Publication: Terrorism Focus Volume: 5 Issue: 41, 03 December 2008
http://www.jamestown.org/single/?no_cache=1&tx_ttnews%5Btt_news%5D=34209
[29] http://www.ktb-20.net/ktb, http://ansar11.org, http://iaisite.org, http://rjfront.info,
http://jaami.info, http://al-rashedeen.info
[30] http://www.kataeb20.com, http://al-hesbah.info, http://al-firdaws.info, http://al-ekhlaas.net,
http://m3ark.net, http://www.alrashedeenarmy.com
[32] http://alboraqmedia.org/index.php?option=com_content&task=view&id=116&Itemid=1
[33] http://alboraq.info, http://alboraqforum.info, http://alboraq.biz, http://muslm.net/vb,
[34] http://www.youtube.com/watch?v=fs-OIJxDEEQ,
http://www.youtube.com/watch?v=qORfqCZ3dLc,
http://www.youtube.com/watch?v=cSv6aOBocMY,
http://www.youtube.com/watch?v=HY5z5r2UjYo,
http://www.youtube.com/watch?v=O0kETEhxIis,
http://www.youtube.com/watch?v=MgAH9SdwK6s
[35] http://www.archive.org/details/Homaat-Aldaar
[36] http://www.youtube.com/watch?v=wPUWXN3dn2o
[37] http://www.youtube.com/watch?v=rwbuFLLG71A,
http://www.youtube.com/watch?v=gNIpnIGMb9o,
http://www.youtube.com/watch?v=kBztD75sOuQ,
http://www.youtube.com/watch?v=2yLVyJBIt5c
[38] http://www.care2.com/causes/human-rights/blog/making-a-career-out-of-killing-gayiraqis-
[39] http://opennet.net/research/profiles/iraq
[40] http://www.nytimes.com/2009/08/04/world/middleeast/04censor.html?_r=2&ref=world
This post is also available in:
English
العربية
हिन्दी
Français
עברית
فارسی
Türkçe